Tum Noor E Dil Ho by S Merwa Mirza Episode 7
Tum Noor E Dil Ho by S Merwa Mirza Episode 7
جائشہ تو اس طرف دیکھنے سے بھی گریز کر رہی تھی، اسے بس غار جیسے کمرے سے نکل کر یوں کھلے آسمان تلے آنا ہی اچھا لگ رہا تھا۔
ساتھ سینے پر ہاتھ باندھ کر کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں پتھر کر کے کھڑا شمائل اسے پہیلی لگتا تھا۔
وہ ابھی تک اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ وہ دل کا نازک سا شہزادہ ہی تھا، وہ دل کا سخت اور برا نہیں تھا بس اپنی ضد اور انا کی زیادہ سنتا تھا۔
خود کی سمت جائشہ کی سوچ کے زیر اثر ڈوبی نگاہیں وہ محسوس کر چکا تھا مگر مڑ کر کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا۔
وہ لڑکی جسے وہ اپنے معیار کا نہیں سمجھتا تھا آج یہاں موجود سب لڑکیوں سے حسین اور پیاری وہی لگ رہی تھی۔کچھ دور ایک اور پیارا سا ترکش کپل ایک دوسرے کی باہوں میں قید ہو کر آسمان کا حسن دیکھ رہا تھا۔
جائشہ دونوں کی معصوم سی محبت دیکھ کر مسکرا دی تو شمائل بھی اسکا خود سے دھیان ہٹتا دیکھ کر کچھ بہتر ہوا۔
"یہاں ہر چیز بہت پیاری ہے، مگر یہ جو بریٹش کپل ہیں انہوں نے آخر مچا رکھی ہے"
جائشہ کے منہ سے غیر ارادی ہی جملہ پھسلا تو وہ خود اس سرزد ہوتی بات پر پتھرا سی گئی اور خود کو کوسا بھی۔
شمائل ہلکی سی زیر لب مسکان بہت مہارت سے ضبط کر گیا جو اتفاق سے جائشہ کی نظر میں آنے سے رہ گئی تھی۔
"یہ پاکستان نہیں، ترکی ہے، یہاں کا اپنا کلچر اور آزادی ہے۔ مجھے یہاں کی یہی بے باکی اچھی نہیں لگتی ہے اور تبھی میں نے اور آدم نے ہمیشہ یہاں سے دور سٹے کیا۔ مگر وہ جگہ مردوں کے لیے بھی چیلنج والی ہے کیونکہ اسکے راستے خاصے خطرناک اور تھکا دینے والے ہیں۔ بس تبھی تمہارے لیے آسانی کو یہاں آیا ہوں"
شمائل سے اسے جواب کی توقع نہ تھی تبھی وہ مڑ کر حیرت سے پھٹے تاثر کے سنگ شمائل کو دیکھ رہی تھی جو ابھی بھی چٹانوں سے بنے لائٹنگ ایریا اور وہاں بجتی دھن کی سمت متوجہ بولا تھا۔
"تھینک یو بولوں کیا اب اس پر"
جائشہ کیوٹ سا فیس بنائے بچوں سا بولی تو اب شمائل نے سرسری سا مڑ کر جائشہ کو دیکھا جو اب آسمان پر پھیلے بادل اور ستارے دیکھ رہی تھئ۔
شمائل کو لگا وہ اپنی نظریں پھر سے ہٹانے پر قادر نہیں رہا تھا، یہ لڑکی اسے واقعئ جادوگرنی لگی تھی۔
گڑبڑا کر وہ آنکھیں پھیر گیا تو جائشہ نے اسکی خاموشی پر اسکی سمت مڑ کر دیکھا جو پتھر سا تاثر دیے کھڑا تھا۔
یہاں کے سارے ڈیشنگ مردوں میں سے بلاشبہ شمائل صدیقی ممتاز ترین تھا اور اس بات پر آج جائشہ کو رشک سا ہوا تھا۔ یوں کہنا چاہیے کہ آج وہ تھوڑی سی شمائل کے منفرد حسن کی قائل ہو گئی تھی۔ خاص کر اسکے مدھم سے بھورے شیڈ دیتے بال، گہری آنکھیں جو مدہوش سی لگتی تھیں۔
باوقار سراپا اور سب سے بڑھ کر جناب کا مغرورانہ پراعتماد انداز تو حقیقی مرد کی عکاسی کرتا تھا۔
"نہیں، میں وہی کرتا ہوں جو مجھے صحیح لگتا ہے"
کچھ دیر خاموشی کا وقفہ حسب منشاء بڑھائے وہ جواب دیے پھر سے سرسری سا جائشہ کی سمت مڑا جو تجسس سے اسی کو دیکھ رہی تھی۔
"تبھی میری جان نکال کر بھی معافی نہیں مانگی تھی تم نے شمائل صدیقی"
جائشہ یہ بات اسے کہہ نہ پائی بس سوچ کر ہی رہ گئی تھی، وہ بھی اب پھر سے رخ پھیر کر سامنے دیکھ رہا تھا اور جائشہ اسی پر نگاہیں مرکوز کیے ہوئے تھی۔
"اس دن کے لیے سوری"
جائشہ کرنٹ کھائے ہونق زدہ ہو کر اس رخ پھیر کر سپاٹ انداز میں کہتے شمائل کو دیکھ کر سکتے میں تھی جو پتا نہیں کیسے جائشہ کی سوچ پڑھ گیا تھا۔
وہ دن، وہ لمحہ، وہ احساس سب یاد آنے پر جائشہ سرخ ہو گئی تھی اور شمائل اسے دیکھنے کو اوائیڈ ہی کرنا چاہتا تھا۔
"جی"
جائشہ نے تیز تیز سانس لے کر اپنا رخ دوسری سمت موڑے شدید گھبراہٹ سے اپنے دل کو قابو کیا جو لگتا تھا سینہ توڑ کر باہر نکل آئے گا۔
شمائل نے گردن موڑ کر بظاہر بے نیاز مگر زرا زرا ہڑبڑاتی جائشہ کو دیکھا تو دل نے اک بیٹ مس کی تھی۔
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
ان سب ویب،بلاگ،یوٹیوب چینل اور ایپ والوں کو تنبیہ کی جاتی ہےکہ اس ناول کو چوری کر کے پوسٹ کرنے سے باز رہیں ورنہ ادارہ کتاب نگری اور رائیٹرز ان کے خلاف ہر طرح کی قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہونگے۔