Hamara Haal Hamre Mazi Se Behtar Nahi By Hina Shahid
Hamara Haal Hamre Mazi Se Behtar Nahi By Hina Shahid
ہمارا حال ہمارے ماضی سے بہتر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔!!!
حناء شاہد
؎ لب پہ پابندی تو ہے احساس پہ پہرا تو ہے
پھر بھی اہلِ دل کو احوالِ بشر کہنا تو ہے
جھوٹ کیوں بولیں فروغِ مصلحت کے نام پر
زندگی پیاری سہی لیکن ہمیں مرنا تو ہے
حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لینے والے جب موجودہ دور کی صورتحال پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ بات ایک ایسی تلخ حقیقت کا روپ ڈھالے ان سب کی ساعتوں کو ملال انگیز کیفیات سے دوچار کر دیتی ہے اور اہلِ عقل اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مشغول ہو جاتے ہیں کہ ہمارا حال ہمارے ماضی سے کیسے بہتر ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
عصرِ حاضر میں بےروزگاری، بدحالی،پریشانیوں کے آتش فشاں مصائب سے بھرپور ہمارا یہ عہدِ حال اور زوالِ انسانیت کا نوحہ پڑھتا ہوا ہمارا آنے والا مستقبل، ہمارے حال کو ہمارے ماضی پر برتری نہیں دے سکتا۔
ہمارا آج شرمندہۤ تعبیر ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی سہولت سے فیضیاب ہونے والی نوجوان نسل جب تعلیم کا فریضہ سرانجام دے کر فراغت پاتی ہے تو بےروزگاری کی چکی میں پِستی ہے۔ مسجدوں اور عبادت گاہوں میں سجدہ ریز ہونے والوں کی جبینیں سجدوں کے تقدس سے محروم ہیں۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے فرمایا تھا؛ " اے کعبہ! تو مجھے بہت پیارا ہے۔ لیکن ایک انسان کا لہو مجھے تجھ سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ " اسی رسولِ اعظم کے امتی بجائے اس کے کہ امن و امان کی خیرات تقسیم کریں وہ اغیار کے آلہ کار بن کر خودکش حملوں سے زندہ شہروں کو لاشوں کا ڈھیر بنا رہے ہیں۔ سچائی اور صداقت نے مصلحت اور ریاکاری کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ ہمارا حال بےحسی ، بیگانگت اور وحشت و دہشت کی وجہ سے جنگل کی ویرانیوں سے بھی کہیں زیادہ ویران ہے۔ آج علم تو سب کے پاس موجود ہے مگر عمل کے حسن سے محروم ہے۔ ہمارے حال کو ہمارے ماضی پر برتری دینے والے لوگ اس بات پر مدلل دلائل دیتے ہوئے صرف اس ایک نقطے پر آ کر اپنی بات ختم کر دیتے ہیں کہ ہمارا حال سائنس اور ٹیکنالوجی کی دولت سے مالا مال ہے۔ لیکن اصل دکھ تو اس بات کا ہوتا ہے کہ اس دولت سے فیضیاب ہونے والے عصرِ حاضر کے یہ خاکی پتلے انسانیت کے خزانوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہمارا حال کیا صرف اس وجہ سے بہتر ہے کہ ہم ایٹمی قوت بن گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
جوہری توانائی کے حصول میں خودکفیل ہو جانے سے کیا ہم بہتر سے بہترین ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ روزافزوں ایجادات نے مستقبل قریب اور مستقبل بعید کے ظاہری خدوخال کو حسن تو عطا کر دیا ہے۔ فلک بوس عمارات اورجدید ٹیکنالوجی آج انتہاء کو چھو رہی ہے۔ اور یقیناً ایسی ہی بہت ساری ایجادات کی دولت سے ہمارا حال مالا مال ضرور ہے۔ اور ان ایجادات کی سہولیات سے ہماری زندگی روشن بھی ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔! سوال تو یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام آدمی کے حالات بھی کیا عصرِ حاضر کی جدیدیت نے تبدیل کیے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔۔۔؟؟؟ تو اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی اس جدیدیت میں بھی عام آدمی پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے محروم ہے۔ تن ڈھانپنے کے لیے اس کے پاس لباس ناپید ہے۔ سادگی سے زندگی بسر کرنے کے لیے وہ عزت کی چھت سے آج بھی محروم ہے اور اپنے ہی پیٹ سے جنم دینے والی اولاد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے وہ آج بھی بالکل اسی طرح دن رات کوششیں کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود آج بھی وہ مصائب برداشت کر رہا ہے اور اس کی زندگی میں کہیں کوئی آسانی نہیں ہے۔ ہمارا حال آج بھی تاریکیوں کے بھنور میں دھنسا ہوا ہے۔ چاروں طرف بجلی کی روشنی ہے۔ مگر آنکھیں بےنور ہیں۔ اور اب تو بجلی بھی ایک حسین خواب کی مانند آنکھ کھلتے ہی کہیں اوجھل ہو جاتی ہے۔ موسمی حالات کے ساتھ بجلی کے بھی تیور بدل جاتے ہیں اور لوڈشیڈنگ کی آنکھ مچولی ہمارے حال کو مزید ابتر کر دیتی ہے۔ ہمارے ظاہر اور باطن دونوں اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہمارے حال کی انسانیت فریاد کناں ہے۔ شرافت کو کمزوری، عزت کو مجبوری اور غیرت کو خاموشی کا نام دے دیا گیا ہے۔ آج علم کا بہت چرچا ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ علم و حکمت کی ڈگریاں ٹنوں کے حساب سے تقسیم ہو رہی ہیں۔ شاعر نے بھی اس حقیقت کو کس قدر خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ذرا آپ بھی توجہ ان اشعار پہ مبذول کیجئیے گا اور غور فرمائیے گا۔ بقول شاعر: ؎ جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے
وہ شریعت معبدوں کے زیرِسایہ ہو گئی
آ گئیں بازار میں بکنے خدا کی عظمتیں
جی اُٹھی ہیں خواہشیں اور مر گیا ہے آدمی
یہ بات توجہ طلب ہے کہ ہمارے حال نے عالمِ انسانیت کو داغدار کر دیا ہے۔ چاروں جانب ظلم و بربریت ہے۔ جوانوں کی جوانی، اور بزرگوں کا بڑھاپا سرِعام گولیوں کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ خودکش حملوں سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہو گیا ہے۔ مائیں اپنے بچوں کو درسگاہوں میں بھیجنے سے گھبراتی ہیں۔ کہ شاید دوبارہ گھر واپس آنا بھی نصیب نہ ہو۔ مکروہ چہروں نے اغواء برائے تاوان کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ عدالتوں کی بولی دی جا رہی ہے۔ حرص و ہوس اور تشدد کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ لوگ سڑکوں پر بکھرے لاشے دیکھتے ہیں مگر کوئی بھی اس کربلا کا گواہ بننے کو تیار نہیں ہے۔ غربت، افلاس ، مہنگائی، دہشت گردی، کرپشن جیسے مسائل کی المناکی پر حساس دل رکھنے والے چند لوگ خون کے آنسو بہارہے ہیں۔ ؎ میں ہوں اس دور کا سقراط مجھے زہر نہ دو
میں تو احساس کی تلخی سے ہی مر جاؤں گا
عصرِ حاضر نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
خودکش حملے، مساجد اور درسگاہوں کا لٹتا ہوا تقدس، غربت و افلاس کا آخری نقطہۤ عروج۔۔۔۔۔۔!
لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم آج جو بوئیں گےآنے والے کل میں ہمیں وہی فصل کاٹنی پڑے گی۔ اندھیرے بو کر روشنی کے شجر کی تمنا نہیں کی جا سکتی۔ غربت و افلاس کا جنگل اگا کر خوش حالیوں کے ثمر کی آرزو کرنا بےوقوفی نہیں تو کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اگر ذہن کے بند دریچوں کو کھول کر اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ عصرِ حاضر کی جدیدیت اپنی جگہ درست ہے یہ ٹیکنالوجی یہ سائنس عصرِ حاضر کا تحفہ ضرور ہیں لیکن کیا ان سب سہولیات کے صحیح استعمال سے ہم نے اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تو اس کا جواب یقیناً نہیں ہی ہو گا۔ آج ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم بےروزگاری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ ، دہشت گردی، کرپشن اور دیگر جرائم جو آج ہمارے حال کو تاریک بنا رہے ہیں ان سب مسائل کے خاتمے کے لیے محض الفاظ کے جال بُننے کی بجائے ہم عملی اقدامات کریں۔ تاکہ ہمارا حال ہمارے گزرے ہوئے ماضی کی طرح شاندار ہو۔ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہم سب کو خود کوشش کرنا ہو گی۔ کل اور آج کی تکرار سے ہٹ کر اپنے مسائل کا تدارک جدید دور کی سہولیات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کرنا ہو گا۔ کیونکہ وقت باربار مواقع فراہم نہیں کرتا اور اگر آج ہم نے اپنے مسائل کو حل نہ کیا تو ہمارا مستقبل کبھی بھی شاندار اور ترقی یافتہ اقوام کے مدِمقابل نہیں ہو سکتا۔ علم کے ساتھ ساتھ صحیح عمل کی دولت سے خود کو فیضیاب کر کے ہم اپنے ماضی کی طرح اپنے حال اور مستقبل کو بھی شاندار کر سکتے ہیں۔ ان دعائیہ اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گی۔
؎ خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پہ اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہۤ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو بھی گزرنے کی مجال نہ ہو
ختم شد